0سوال:-ایک شخص نے قسم کھاٸی کہ ساری رات نہیں سوٶں گا پھر آدھی رات میں نیند ایسا غالب ہوا کہ غیر اختیاری سوگیا۔اب کفارہ ادا کرے گا یا نہیں۔باحوالہ جواب چاہٸے ؟

                                                             :الجواب وباللہ التوفیق 
جب اس نے قسم کھائی کہ وہ پوری رات نہیں سوئے گا لیکن بغیر کسی اختیار کے پھر رات کے کسی پہر میں سو گیا تو اس کی وجہ سے وہ حانث نہیں ہوگا اور اس کے اوپر کفارہ بھی واجب نہیں ہوگا  جیسا کہ درج ذیل عبارت سے مستفاد ہوتا ہے۔ 

إذا حلف " لا ينام حتى يقرأ كذا وكذا “ فنام جالسا ، وفى الخانية : من غير قصد ، قبل أن يقرأ ما سمى : لا يحنث. (الفتاوى التاتار خانیہ٢٠٨/٦، کتاب الایمان، الفصل ١٢: الحلف علی الافعال ، رقم:٩٢٠٩)

إذا حلف لا ينام حتى يقرأ كذا وكذا، فنام جالساً قبل أن يقرأ ما سمى، لا يحنث ؛ لأن النوم جالساً غير مراد من هذا اليمين عادة؛ لأنه لا يمكن الاحتراز عنه فلا يقع الحنث به . المحيط البرهاني كتاب الايمان والنذور الفصل الثاني عشر الحلف على الاإذا حلف " لا ينام حتىفعال ، رقم:٧٤٩٥) . فقط والله سبحانه وتعالى اعلم.

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مسجد میں گمشدہ چیز اور جنازہ وغیرہ کا اعلان کرنے کا حکم؟

                  باسمہ تعالیٰ
الجواب وبالله التوفیق : مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ جوچیز اندورن مسجد گم ہو جائے تو اس کا علان اس شرط کے سا تھ جائز ہے، کہ شور و شغب نہ ہو اور نمازیوں کو خلل نہ ہو، اور اگر بیرون مسجد کم ہوگئی ہے تو حدود مسجد سے باہر دروازہ پر کھڑے ہو کر اعلان کرنا جائز ہے، اندرون مسجد ممنوع ہے۔ (مستفاد: فتاوی محمودیه قدیم ۲۵۳/۱۵، جدید ڈابھیل ۲۱۱/۱۵، قاسمیہ ۴۶۳/۱۸)
(۲)اور جنازے کا اعلان بوقت ضرورت مسجد میں کرنا جائز ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بات ثابت ہے کہ جب نجاشی کی خبر اللہ کے رسول کو پہنچی تو آپ اس وقت مسجد میں موجود تھے اور آپ نے اس کا اعلان کیا 

(مستفاد: دار الافتاء بنوری ٹاؤن کراچی فتویٰ نمبر:144205201497) وأما إنشاد الضالة فله صورتان إحداهما إن ضل شيئي في خارج المسجد وينشده في المسجد لاجتماع الناس فهو أقبح وأشنع وأما لو ضل في المسجد فيجوز الإنشاد بلا شغب الخ. (العرف الشذى على هامش الترمذي ،ابواب الصلواة، باب كراهية البيع والشراء انشاد الضالة في المسجد ۸۰/۱)

قال الشيخ وأما إنشاد الضالة فله صورتان : إحداهما : وهي اقبح وأشنع بأن يضل شيئى خارج المسجد ثم ينشده في المسجدلأجل اجتماع الناس، والثانية: أن يضل في المسجد نفسه فينشده فیه وهذا يجوز إذا كان من غير لغط وشغب. (معارف السنن اشرفيه۳۱۳/۳) وقد استدل محمد رحمه الله تعالى في «موطئه» أن مُصَلَّى الجنائز في عهد النبي صلى الله عليه وسلم كان يجنب المسجد. فهذا دليل قوي على أن صلاةالجنازةينبغي أن تكون خارج المسجد، حتى أَنَّ النبي صلى الله عليه وسلملما بلغه نعي النجاشي خرج إلى خارج المسجد ولم يصل فيه". (شرح النووي على مسلم مشکول 369/3) فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: زید کے پیر میں پھوڑا تھا زید فجر کی سنت گھر سے پڑھ کر نکلا اور اس پھوڑے سے خون نکلا اور بہ گیا زید نے مسجد میں وضو کیا اور جماعت میں شریک ہوگیا نماز مکمل کی اور اس پھوڑے سے جماعت کے دوران خون نکل آیا تھا تو اب شرعاً کیا حکم ہے ؟ کیا زید کو شرعاً معذور مانتے ہوئے نماز درست ہوجائے گی یا نماز کا اعادہ کرنا ہوگا ؟

الجواب وباللہ التوفیق:
سوالنامہ سے واضح ہے کہ خروج دم کا دورانیہ نماز کے مکمل وقت کو گھیرے ہوئے نہیں ہیں لہذا نماز میں خون نکلنے کی وجہ سے وضو اور نماز دونوں باطل ہو جائیں گے اور نماز کا اعادہ کرنا ہوگا ،مصلی اس سلسلے میں معذور شمار نہیں ہوگا۔

المعاني الناقضة للوضوء. الدم والقيح إذا خرجا من البدن فتجاوزا إلى موضع يلحقه حكم التطهير .... لأن خروج النجاسة مؤثر في زوال الطهارة الخ. (الهداية / كتاب الطهارة ٢٤/١ مكتبه بلال ديوبند)

ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان (الدر المختار، كتاب الطهارة / مطلب نواقض الوضوء ٢٦٢/١ زكريا)

ما ينقض خروجه الطهارة يكون نجسا في نفسه. (رسائل ابن عابدين / رسالة: الفوائد المخصصة بأحكام كي الحمصة ٥٥/١ سهيل اكيلمي لاهور)

مسجد سے اعلان کرتے وقت جو سلام کیا جاتا ہے اس کا جواب دینا بھی واجب ہے۔۔۔؟

الجواب وباللہ التوفیق :
اگر کوئی شخص کسی مجمع کو سلام کرے تو سننے والوں میں سے کسی ایک فرد پر سلام کا جواب دینا واجب ہے، اگر کوئی ایک شخص بھی جواب نہ دے تو وہ تمام لوگ گنہگار ہوں گے، لہذا ایسی صورت میں اگر مسجد کے مائک سے سلام کا اعلان ہو تو جہاں تک مائک کی آواز پہنچے اور جو حضرات اس سلام کو سنے ان میں سے کسی ایک فرد پر سلام کا جواب دینا واجب ہوگا ،اب سوال یہ پیدا ہوگا کہ کیسے معلوم ہو کہ کس نے جواب دیا ہے اور کس نے نہیں تو ایسی صورت میں جو بھی سنے اس کو سلام کا جواب دینے کی کوشش کرنی چاہیے کوئی نہ کوئی ایک فرد سلام کا جواب دینے والا ہو جائے گا اور وہ تمام لوگ اس کی وجہ سے ذمے سے بری ہو جائیں گے۔ جیسا کہ درج ذیل عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔

لو دخل شخص مجلسًا فإن كان الجمع قليلاً يعمهم سلام واحد فسلم كفاه، فإن زاد فخصص بعضهم فلا بأس ويكفي أن يرد منهم واحد، فإن زاد فلابأس، وإن كانوا كثيرًا بحيث لا ينتشر فيهم فيبتدئ أول دخوله إذا شاهدهم وتتأدى سنة السلام في حق جميع من يسمعه، ويجب على من سمعه الرد على الكفاية. (فتح الباري ١٤/١١-١٥ رياض)

قال الفقيه أبو الليث : إذا دخل جماعة على قوم، فإن تركوا السلام فكلهم آثمون في ذلك، وإن سلم واحد منهم جاز عنهم جميعا، وإن تركوا الجواب فكلهم آثمون، وإن ردّ واحد منهم أجزأهم. (تكملة فتح الملهم ٢٤٣/٤ المكتبة الأشرفيةدیوبند) فقط واللہ تعالی اعلم ۔

ایمان والے حضرات بھی دیوالی میں بہت سے لوگ گوشت لیتے ہیں اور اس دن ہڈیوں کو چھت پر ڈال دیتے ہیں پھر صبح پھینکتے ہیں دھولا ہوا پانی دیواروں پر چھڑک تے ہیں جس دن غیر مسلم چراغ روشن کرتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے وضاحت فرمادیں ؟

الجواب باللہ التوفیق :سوال میں جن اعمال کا تذکرہ کیا گیا ہے تو ان کو مسلمان اس لیے کرتے ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اس عمل کی وجہ سے گھروں میں جادو، ٹونا ، آسیب وغیرہ کے اثرات نہ ہوں تو ایسے اعمال کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے بظاہر یہ برادران وطن کے فاسد عقائد و توہمات میں شامل ہیں ، اس لیے مسلمانوں کو ایسی مشکوک باتوں سے احتراز کرنا چاہیے۔
( مستفاد: نخبۃ المسائل۶۲/۱)

عن أبي هريرة رضي الله عنه يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر الخ. (صحيح البخاري ٨٥٠/٢ رقم: ٥٤٨٨)

قال عبد الله بن أبي بكر حسبت أنه صلى الله عليه وسلم قال: والناس في مبيتهم لا تبقين في رقبة بعير قلادة من وتر ولا قلادة إلا قطعت، قال مالك أرى أن ذلك من أجل العين. (سنن أبي داؤد، كتاب الجهاد / باب في تقليد الخيل بالأوتار ٣٤٦/١ رقم: (٢٥٥٢)

کیا فرماتے میں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں: Happy diwali / کا اسٹیٹس لگانا شرعاً کیسا ہے ؟

الجواب وباللہ التوفیق:

دیوالی کا تہوار ایک مذہبی تہوار ہے جو ہندو مذہب کے ماننے والے مناتے ہیں، اور اس میں مخصوص عقائد اور عبادات شامل ہیں۔ اسلامی نقطۂ نظر سے، ایسے تہواروں میں شرکت کرنا یا ان سے متعلق کسی طرح کا تاثر دینا، جیسے کہ “Happy Diwali” کا اسٹیٹس لگانا، مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں سمجھا جاتا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دینِ اسلام میں غیر اسلامی عبادات اور عقائد کی ترویج یا اس سے وابستگی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے تاکہ دین کی اصل روح اور شناخت برقرار رہے۔ اسی لیے مسلمان ایسے اسٹیٹس یا پیغامات سے اجتناب کریں۔

 

عَنِ اِبْنِ عُمَرَ ‏-رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُمَا‏- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ ‏- صلى الله عليه وسلم ‏-{ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ, فَهُوَ مِنْهُمْ } أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ, (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: 4031) قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ: “وَأَمَّا التَّشَبُّهُ بِهِمْ فِي أَعْيَادِهِمْ فَهُوَ أَقْبَحُ مِمَّا ذُكِرَ” (اقتضاء الصراط المستقيم، جزء 1،)

قسم
قسم

1 thought on “0سوال:-ایک شخص نے قسم کھاٸی کہ ساری رات نہیں سوٶں گا پھر آدھی رات میں نیند ایسا غالب ہوا کہ غیر اختیاری سوگیا۔اب کفارہ ادا کرے گا یا نہیں۔باحوالہ جواب چاہٸے ؟”

Leave a Comment